راضی بہ رضا کا مطلب....؟
بہو اور بیٹا، پلٹ کر گھر نہیں آئے....؟
سوال:
میری عمر تقریباساٹھ سال ہے۔ میری دوبیٹیاں اورایک بیٹا ہے میرے سب بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں ۔میرابیٹا جب ڈھائی سال کاتھا تو شوہر کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ وہ ایک بہت اچھے انسان اوربہت محبت کرنے والے شوہر تھے۔ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد میں نے بڑی مشکلوں سے اپنے تینوں بچوں کی پرور ش کی۔ سخت محنت ومشقت کرکے انہیں اعلیٰ؎تعلیم دلوائی۔دونوں بیٹیوں کی شادی کردینے کے بعداپنے واحد بیٹے کی شادی ایک غریب گھرانے میں کی حالانکہ اس کے لیے اچھے اچھے گھرانوں میں رشتے موجودتھے۔ میں نے اپنی بہو کا ہرطرح خیال رکھا ۔شادی کے چندماہ بعد ہی یہ ظاہر ہونے لگا کہ بہو میرے ساتھ رہنے میں خوش نہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ علیحدہ رہنا چاہتی تھی۔پہلے تومیرے بیٹے نے صاف کہہ دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں ماں سے علیحدہ ہوکر نہیں رہے گا مگررفتہ رفتہ اس کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ میری بہو نے مجھ سے اپنا تعلق بہت محدود کر لیا تھا پھر میر ابیٹابھی مجھ سے کھنچاکھنچا رہنے لگا۔ میرے ساتھ ان دونوں کی سرد مہری اورلاتعلقی بڑھتی گئی۔آخر کار ایک دن میرا جوان بیٹا اپنی بوڑھی بیوہ ماں کو تنہاچھوڑکر اپنی بیوی اوربچوں کے ساتھ علیحدہ مکان میں شفٹ ہوگیا۔ اب میں اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔دن میں کسی وقت میری بیٹیوں میں سے کوئی ایک تھوڑی دیرکے لیے میرے پاس آجاتی ہے ۔ چھٹی والے دن کبھی رات کو بھی کوئی بیٹی میرے پاس رک جاتی ہے۔ مگر بیٹا مجھے ملنے بہت کم آتاہے،وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے۔ وہ جتناوقت میرے پاس بیٹھتا ہے میری بہو اسے مسلسل فون کرتی رہتی ہے اوراسے طرح طرح کے کام بتاتی رہتی ہے ،کبھی اسے یہ بتاتی ہے کہ اسے فلاں جگہ پہنچنے میں دیرہورہی ہے ۔وہ جتنی دیر میرے پاس بیٹھتا ہے لگتاہے کہ بے دلی سے بیٹھا ہوا ہے۔اس کے برعکس میری دونوں بیٹیاں جس طرح بھی ہوسکے میرا بہت زیادہ خیال کررہی ہیں۔
ہر ماں باپ کوبڑھاپے کی عمر میں اپنی اولاد کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر بہت اطمینان ہوتاہے ،اولاد دورہو تو ماں باپ پریشان ہوتے ہیں لیکن جوانی کی عمرمیں بیوہ ہوجانے والی ماں کو بڑھاپے میں اس کا بیٹا چھوڑ کر چلا جائے تویہ دکھ لفظوں میںبیان نہیں کیا جاسکتا۔
ایک بس ڈرائیور کی غلطی سے جوانی میں میرا شوہر مجھ سے جدا ہوگیا۔ بڑھاپے میں میری بہو کی خود غرضی سے میرے وجود کا ایک حصہ ،میرا اپنا بیٹامجھ سے الگ کر دیاگیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب! میں روحانی ڈائجسٹ کی برسوں پرانی قاری ہوں ۔آپ کی بصیرت افروز تحریریں بہت توجہ سے پڑھتی ہوں۔ میر اآپ سے ایک سوال ہے۔۔۔۔۔
راضی بہ رضا رہنے کامطلب کیا ہے...؟
میر ی جوانی توجیسے تیسے گزرگئی۔بڑھاپا بھی کسی نہ کسی طرح گزرہی جائے گا لیکن ان حادثات پر کیا مجھے اپنے خداسے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اس نے میری قسمت ایسی کیوں بنائی ہے......؟
<!....ADVWETISE>
<!....ADVERTISE>
جواب:
محترم بہن! آپ کے بیٹے اوربہو کے طرزعمل کاپڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ ان دونوںکوآپ کی خدمت کرکے آپ کی دعائیں لینی چاہیے تھیں۔آپ بہت زیادہ اذیت و تکلیف میں مبتلا ہیں۔ میری دعاہے کہ آپ کو سکون و اطمینان عطاہو ۔
جوانی میں بیوہ ہوجانے کے بعد آپ نے اپنے بچوں کی پرورش اوراعلیٰ تعلیم کے لیے خود کووقف کردیا۔ دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے اس ایثار وقربانی کوقبول فرمائے اورآپ کو بہت زیادہ اجر عطافرمائے ۔آمین
آپ کے بیٹے کی آپ کے ساتھ لاتعلقی آپ کے ذہن میں قسمت اورراضی بہ رضا رہنے کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات کا سبب بن رہی ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کے تحت اس دنیا میں انسان کے معاملات میں ’’تقدیر کے لکھے ‘‘اور’’تدبیر کے رد عمل‘‘ دونوں ہی کا اپنا اپنا حصہ ہوتاہے۔ اگر ہم بطورتدبیر صاف ستھری فضاء میں سانس لیں گے ،صحت بخش غذالیں گے تو تقدیر کے مطابق ہماری صحت اچھی رہے گی ۔اگر ہم آلودہ فضاء میں سانس لیں گے ،خراب پانی پئیں گے توتقدیر کے مطابق ہماری صحت خراب ہوجائے گی۔
تقدیر کے تمام تونہیں مگر کئی معاملات بہت سارے ’’اگر‘‘ (IF) کے ساتھ منسلک ہیں۔
محترم بہن! آپ کوکئی مصائب سہنے پڑے ،بہت دکھ اٹھانے پڑے۔ ان پر آپ ہرطرح سے ہمدری کی حقدار ہیں۔ہمدردی کے اظہار کے ساتھ میں آپ سے یہ بھی دریافت کرنا چاہوں گا کہ اپنے بیٹے کارشتہ طے کرتے وقت آپ نے کیا سوچاتھا....؟
مالی لحاظ سے اپنے ہم پلہ گھرانوں میں اوراپنے خاندان میں اچھے رشتے نظر انداز کرکے اپنے سے بہت کم مالی حیثیت کے گھر میں رشتہ آپ نے کن وجوہات کی بنا پر کیا....؟
اپنے خاندان میں رشتہ نہ کرنے کی وجوہات کیا یہ نہ تھیں کہ ان لوگوں نے مشکل وقت میں آپ کا ساتھ نہیں دیاتھا۔ آپ نے سوچا اب آپ ان کی بیٹی کیوں لیں....؟
کیا آپ کے ذہن میں یہ بات نہیںتھی کہ غریب گھر کی لڑکی آ پ کے خوشحال گھرانے میں دب کر رہے گی۔ آپ کے سامنے سرنہیں اٹھائے گی اورہمیشہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی۔
آپ کی بہو نے آپ کی سوچ پڑھ لی اور اس نے اپنے ذاتی مفاد میں سوچنا شروع کردیا۔اب ساس اوربہو نے الگ الگ پوزیشن لے لی۔ دونوں کے درمیان ہونے والی اس کشمکش میں آپ کی بہوجیت گئی۔ یہ تواپنے اپنے مقاصدکوحاصل کرنے کی کشمکش تھی اس میں تقدیر کا گلہ کیسا....؟
بہرحال ! آپ کی خدمت کرنا آپ کے بیٹے پر فرض ہے۔ آپ کی بہو کوبھی خود غرضی یا مقابلہ آرائی کی سوچ چھوڑ کر آپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ میری دعاہے کہ اﷲ ان دونوں کوہدایت دے۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ بنی اسرائیل (17)کی آیت 15میں سے
مَّنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَـهْتَدِىْ لِنَفْسِهٖ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْـهَا ۚ
اورآیت 23 اور24
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًاO وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا O
گیارہ گیارہ مرتبہ دورد شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے اوربہو کا تصور کرکے دم کردیں اوران کے لیے ہدایت کی اورآپ کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق ملنے کی دعاکریں۔ یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔