پاکستان کو درپیش مسائل اسوہ حسنہ سے رہنمائی
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2022ء سے انتخاب
الحمدللہ ہمیں اپنی زندگی میں ایک مرتبہ پھر اللہ کے محبوب ترین بندہ، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد رسول اللہﷺ کے یومِ ولادت پر خوشیاں منانے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کاموقع مل رہا ہے۔
عید میلادالنبی مبارک ہو۔
حضرت محمد ﷺ نے اللہ کی آخری کتاب قرآن کے ذریعے انسان کو اس دنیا میں فلاح و کامرانی کے اصول بتائے اور طریقے سکھائے۔ آپﷺ کی تعلیمات سے انسان آخرت میں سرخ روئی کے رازوں سے واقف ہوا۔ آپ کی قیادت میں ریاست مدینہ محض دس سال کے اندر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا مرکز بن گئی۔ یہ انقلاب انسان کے مادی اور روحانی دونوں رخوں پر اثر انداز ہوا۔
محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات ہر دور کے انسان کے لیے فلاح اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
مسلمان جب تک قرآن پاک اور حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے اس دنیا میں کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔ جب ان تعلیمات سے انحراف کیا گیا مسلمان اپنی طاقت، دنیا کی امامت سے محروم ہوگئے۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ اسلامی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دنیا میں جگہ جگہ مسلمان غیروں کے سیاسی اور اقتصادی تسلط میں مبتلا ہیں۔ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا کے کئی خطوں میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ اس صورت حال پر عالمی ضمیر تو ایک طرف خود مسلم ضمیر بھی خاموش ہے۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والی امت مسلمہ کے پچاس کروڑ سے زیادہ افراد شدید غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غربت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے وسائل کو اپنے پاس روک رکھا ہے۔
غریب یا نہایت کم سالانہ قومی آمدنی رکھنے والے نمایاں اسلامی ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، سوڈان، نائیجیریا، شام اور دیگر ایشیائی و افریقی مسلم ممالک شامل ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے جو نظام عطا فرمایا خلفائے راشدین کی جانب سے اس پر عمل کا ثمر یہ ملا کہ ریاست مدینہ میں تھوڑے عرصے میں ہی زکوٰۃ دینے والے تو بہت ہوگئے لیکن ذکوٰۃ لینے والوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا۔
انسانی فطرت سے سب سے زیادہ واقف، خیرالبشر حضرت محمد ﷺ نے ایک روز دعا فرمائی۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ
‘‘اے اللہ! میں کفر اور افلاس سے پناہ مانگتا ہوں۔’’
پوچھا گیا، کیا یہ دونوں برابر ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ہاں۔ [سنن نسائی]
ایک روز آپ ﷺ نے تاکید فرمائی کہ افلاس، قلت، ذلت اور ظلم کرنے یا مظلوم بننے سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔ [سنن ابن ماجہ]
غربت بہت تکلیف دہ حالت ہے۔ اس کی وجہ سے کئی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کئی جرائم مثلاً چوری، ڈکیتی، رہزنی وغیرہ کے اسباب میں غربت اہم ترین ہے۔
قرآن پاک اور تعلیمات نبوی پر ایمان رکھنے والے افراد اور معاشروں کی ذمے داری ہے کہ وہ غربت دور کرنے اور معاشرے میں جرائم کی سطح کم سے کم رکھنے کے لیے ملک میں ذرایع پیداوار کو ترقی دیں اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اسلامی اقتصادیات کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہ ہو اور گردش زر کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہو۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق دولت کے حصول کی کوششیں اپنے ساتھ کئی پابندیاں بھی لیے ہوئے ہیں۔ دولت اور وسائل اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ انسان اپنی کوششوں سے ان وسائل تک رسائی پاتا ہے۔ لیکن انسان کو دولت کمانے کی مطلق آزادی نہیں دی گئی۔
ناجائز اور حرام ذرایع سے دولت کمانا منع ہے اور ایسا کرنا گناہ۔ انسان اپنی کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنے میں بھی کلی خودمختار نہیں۔ ناجائز اور ممنوعہ کاموں پر، دوسروں کے استحصال، ذخیرہ اندوزی، ظلم کے کاموں، معاشرے میں امن کے بگاڑ اور دیگر برے کاموں پر دولت خرچ نہیں کی جانی چاہیے۔ دولت کمانے اور خرچ کرنے پر یہ پابندیاں سرمایہ دارانہ نظام پسند نہیں کرتا۔ یہ پابندیاں اہل ثروت افراد کو دوسروں پر ظلم سے اور استحصال کرنے سے باز رکھتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں جھوٹ، دھوکا دہی، رشوت، خیانت، ملاوٹ، فراڈ، ظلم کی آمیزش اور دیگر منفی درایع سے ہونے والی کمائی سے منع کیا گیا ہے۔
ایک مجلس میں آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر اور افضل کمائی کون سی ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایسی تجارت جس میں اللہ کی نافرمانی شامل نہ ہو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنا۔ [مسند احمد]
آج ہمارے معاشرے میں کئی برائیاں نظر آتی ہیں۔ غذائی اشیاء اور دواؤں میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، کم تولنا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، رشوت، چور بازاری، دوسروں کے مال و اسباب پر ناجائز قبضوں، اور دیگر کئی منفی کاموں نے ہمارے معاشرے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
کئی لوگ ایسے ہیں جو عبادت کرتے تو نظر آتے ہیں لیکن اس عبادت کا اثر ان کی عملی زندگی میں نظر نہیں آتا۔ کوئی ملاوٹ میں مصروف ہے، کوئی بلیک مارکیٹنگ میں، کوئی دوسروں کو ناحق تکلیف پہنچانے میں۔ کئی لوگ اپنے فائدے کے لیے بہت آرام سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ناجائز کمائی محض انفرادی برائی نہیں ہے بلکہ ہر ناجائز کمائی کسی نہ کسی کی حق تلفی کی وجہ بنتی ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا معاشرہ ہم آہنگی، اتحاد، تعاون، خیر و فلاح کے ثمرات سے محروم ہونے لگتا ہے۔ ایسے معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔ لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے اور ان کے درمیان تلخیاں اور نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایسی کئی حالتیں ہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھاکہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟
لوگوں نے عرض کیا مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہو نہ کوئی اور سامان۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال ناحق کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوموں کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ [صحیح مسلم]
کچھ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ناجائز طریقوں سے خوب دولت کماتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے صدقات ناجائز کمائی کے گناہ کو دھودیں گے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس میں سے خدا کی راہ میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا’’۔ [مسند احمد]
آج اُمتِ مسلمہ کو درپیش کئی مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشروں کو رسولاللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق نہیں چلایا۔ ہمارے حکم رانوں، افسروں، تاجروں، صنعت کاروں اور کسی بھی ذمہ داری پر افراد کی اکثریت کسی نہ کسی طرح دوسروں کی حق تلفی کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔
ہم پاکستانی اگر اپنی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو کیپٹل ازم کے دھوکے یا کمیونزم کے سحر میں اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے ہمیں قرآن پاک اور حضرت محمدﷺ کے عطاکردہ نظام سے روشنی حاصل کرنا ہوگی۔
(ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کی ایک تقریر کی تلخیص)