لڑکے کی لڑکیوں جیسی چال.... جنسی کشش کا قانون
ایک دن مطب میں میرے پاس ایک نوجوان آیا ، اس کے انداز سے کچھ نسوانیت جھلکتی تھی، اس نے مجھے بتایا کہ اس کی عمر 22سال ہے اور وہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے ۔ اس نے اپنا مسئلہ مجھے یہ بتایا کہ اس میں مردوں والی جو خوبی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے۔ اس کی چال کچھ لڑکیوں کی طرح، بولنے کا انداز بھی لڑکیوں جیسا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ اس کی آواز بھی مردوں جیسی نہیں تھی بلکہ باریک سی لڑکیوں جیسی آواز ہے۔ اس نے کہا کہ یوں سمجھیے کہ میں جسمانی طور پر یعنی بایولوجیکلی تو مرد ہوں لیکن میرے انداز و اطوار لڑکیوں جیسے ہیں اور اس نے کہا کہ اس کے چہرے سے جھلکتی ہوئی نسوانیت اس کے لیے بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔ اس نے کہا کہ میں کسی کام سے بازار جاتا ہوں تو لڑکے مجھے بہت ہی عجیب سی نظروں سے گھورتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کررہا ہوتا ہوں تو مجھے دیکھ کر بعض لوگ چونک جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے چہرے پر کچھ دبی دبی سی مسکراہٹ آجاتی ہے۔اس نے بتایا کہ اس نے یونیورسٹی کی کلاسز تو نہیں چھوڑیں ، لیکن اس کے علاوہ گھر سے باہر نکلنا بہت کم کر دیا ہے۔ فیملی میں ہونے والی تقریبات میں جانے سے بھی وہ جتنا ہوسکے Avoid کرتا ہے ۔
یہ نسوانیت اس کے مطابق اس کے اندر کئی سال سے ہے، پہلے جب اس داڑھی مونچھیں نہیں نکلی تھیں تو اس کا خیال تھا کہ جب میرے چہرے پر بال آجائیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، لیکن چہرے پر داڑھی اور مونچھوں کےجو بال آئے وہ بھی نارمل نہیں بلکہ کم تھے۔ یعنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی چہرے پر جو مردانگی کے آثار و علامات ہوتی ہیں وہ اس میں نارمل سے کم تھیں۔
اس وجہ سے کالج میں کوئی لڑکا اسے عورت کہہ دیتا تھا ، کوئی اسے زنانہ روح کہہ کر پکارتا تھا اور لڑکیا ں بھی اسے دیکھ کر دبے دبے سے انداز میں ہنستی تھیں ۔ لوگوں کے اس ری ایکشن نے اور بعض لوگوں کے طعنوں نے اور اس طرح کے القابات نے اس کے مطابق اسے ذہنی مریض اور احساسِ کمتری کا مریض بنا دیا ۔ یہ سب بتا کر اس نے کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے چہرے سے اور اس کے انداز سے یہ نسوانیت ختم ہوجائے اور اس کی شخصیت میں مردانہ وجاہت نمایاں ہوجائے۔
نسوانی انداز و اطوار رکھنے والے اس لڑکے کی باتیں میں نے تفصیل سے سنی او پھر اسے میں نے قلندر بابا اولیاءؒ اور میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے تجویز کردہ علاج بتائے۔
سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیاءؒ اور میرے والد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے اس اہم موضوع پر آسان انداز میں رہنمائی کی ہے۔ قدرت کے بنائے ہوئے تخلیقی نظام کے تحت ہر نوع کا ہر فرد دورخوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک رخ غالب ہوتا ہے ایک رخ مغلوب ہوتا ہے۔ ایک مرد ہے نر ہے ایک عورت ہے مادہ ہے Female ہے۔ تو مرد کا غالب رخ مرد ہے اور اس کا مغلوب رخ عورت ہے۔ اور عورت کا Femaleکا غالب رخ عورت ہے اور اس کا مغلوب رخ مرد ہے۔ ہر مرد میں اور ہر عورت میں مردانہ اور زنانہ دونوں ہارمونز موجود ہوتے ہیں فرق صرف مقداروں کا ہے۔ مرد کے لیے ان ہارمونز کی مقدار الگ ہوگی عورت کے لیے ان ہارمونز کی مقدار الگ ہوگی۔
نفسیاتی اور ایک محقق گزرے ہیں کارل ژنگ Carl Jung صاحب انہوں نے انسانوں میں غالب اور مغلوب رخ کے اس نظام کو Anima اور Animus کے اصطلاحی نام دئیے ہیں۔ میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اس نظام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہر فرد میں موجود مغلوب رخ اپنی تکمیل چاہتا ہے۔ مرد کا مغلوب رخ ہے عورت ۔عورت کا مغلوب رخ ہے مرد ۔ جنسی کشش اسی بنیاد پر انسانوں کے اندر ابھرتی ہے۔ جن لوگوں میں یہ غالب اور مغلوب کی مقداریں طبعی توازن میں ہوتی ہیں وہ بھرپور مرد یا بھرپور عورت ہوتے ہیں ، جہاں یہ توازن کچھ بگر جائے وہاں بعض اوقات لڑکوں میں یا مردوں میں لڑکیوں جیسی عادات یا مردوں میں زنانہ صفات یا زنانہ حرکات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لڑکیوں میں کچھ مردانہ صفات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
اچھا اب یہاں پر ایک اور مشاہدہ ہے۔ کسی لڑکی میں مردانہ صفات یعنی بہادری اورInitiativeلینا اور اس طرح کی صفات ظاہر ہوتی ہیں اور ایک ایکٹیو لائف گزار رہی ہو تو اس بات کو زیادہ نوٹس نہیں لیا جاتا ، یعنی یہاں مقداروں کے غیرمتوازن ہونے کو زیادہ نوٹس نہیں کیا جاتا ، لیکن ایک مرد اس کے نادر ایک عدم توازن ہو اور اس کے اندر زنانہ پن جھلکنے لگے تو وہ فوراً نوٹس ہوجاتا ہے۔ لڑکیاں جب ایکٹیو ہوتی ہیں، فرض کرو کہ وہ کار چلاتی ہیں فرض کرو کہ وہ ہارس رائیڈنگ کرتی ہیں، فرض کرو کہ وہ پہاڑوں پر چڑھتی ہیں یا اسپورٹس میں جاتی ہیں تو ہم انہیں Appreciate کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ دیکھو یہ ماشاء اللہ کیسی زبدردست اور بڑی Confidentہے۔
لٹوں میں اگر مغلوب رخوں والی صفات حاوی آنے لگیں تو کہتے ہیں کہ یہ اس میں کیا زنانہ پن آرہا ہے بھئی، یہ کیسے باتیں کررہا ہے، اس کا بیٹھنا اٹھنا کیسا ہے۔ اس کا بات کرنا کیسا ہے۔
اچھا اس میں ایک اور پرابلم بعض لڑکوں میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جب کسی کے اندر یہ مغلوب صفات حاوی آنے لگتی ہیں تو کچھ لڑکے اپنے چہرے کو زنانہ شباہت میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، مثال کے طور پر وہ Pluckingکریں گے ، آئی بروز بنائیں گے، کھرچ کھرچ کر شیو کریں گے۔ لڑکیا اگر بال کٹوالیں یا بوائے کٹ کرلیں تو وہاں صنفی لحاظ سے یا غالب مغلوب رخ کے لحاظ سے عدم توازن پر اتنا زیادہ دھیان نہیں جاتا۔ لڑکے کی جب ایسی تبدیلی ہوتی ہے وہ فوراً نوٹس کرلی جاتی ہے۔
رویوں میں ، حالات میں یا کسی اور طرح ہونے والی ان تبدلیوں کے اسباب جسمانی یعنی بایولوجیکل ہوسکتے ہیں، ذہنی ہوسکتے ہیں یعنی مینٹل پرابلم یا پھر یہ نفسیاتی ہوسکتے ہیں یعنی سائیکوجیکل ہوسکتے ہیں۔ اگر جسمانی اسباب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بہت زیادہ سیریس مسئلہ ہے اور یہ بڑھتے بڑھتے جنسی تبدیلی پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی اسباب انداز اور رویّوں میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان اسباب کا علاج نفسیاتی یا روحانی طور پر ہوسکتا ہے۔ اس کا جو اصول علاج ہے اور انداز ِ علاج ہے وہ یہی ہے کہ مغلوب رخ کے بجائے غالب رخ کو تقویت دی جائے۔
جن لڑکوں میں کچھ زنانہ اوصاف جھلکنا شروع ہوئے ہیں یا کافی عرصہ سے ہورہے ہیں ، ان کی اصلاح ممکن ہے۔ یکسوئی اور مستقل مزاجی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرلی جائے تو ان شاء اللہ چند ماہ میں بہتر نتائج مل سکتے ہیں ۔ ایسی صورت میں جو متاثرہ شخص ہے مرد ہے یا عورت ہے لڑکا ہے یا لڑکی ہے ، اس میں بہتری لانے کے لیے اس کے گھر والوں کا تعاون بہت زیادہ ضروری ہے ، ور گھروالوں کے ساتھ ساتھ اس کے دوست احباب یا وہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتا ہے یا کسی جگہ کام کرتا ہے تو وہاں کے کولیگز کا تعاون اس کی تصحیح کے لیے بہت زیادہ مفید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اسے مذاق کا نشانہ یا طنز یا نکتہ چینی کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔ غالب اور مغلوب رخ میں عدم توازن ہے اور یہ صورتحال اگر کسی مرد میں پیدا ہورہی ہے تو اس کے لیے سرخ رنگ کا استعمال بہت مفید ہے۔ کیونکہ سرخ ایک مردانہ رنگ ہے۔ نیلا رنگ زنانہ رنگ ہے۔ لڑکوں یا مردوں میں مردانہ اوصاف کی بحالی یا درستی کے لیے سرخ رنگ سے مدد لی جانی چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی صبح اور شام ایک ایک پیالی پیا جائے اور بطور روحانی علاج قرآن پاک میں سورۂ القیامہ(75) کی آیات ، 36، 37، 38، 39
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْـرَكَ سُدًى O
اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰى O
ثُـمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّ ٰ ى O
فَجَعَلَ مِنۡہُ الزَّوۡجَیۡنِ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰی O
اکیس اکیس مرتبہ پڑھیں ، ساتھ ساتھ اول آخر تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی پر دم کرکے ، دم کیا ہوا یہ پانی پی لیا جائے۔ ایسے متاثرہ لڑکے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم
یاقوی
کا ورد کرتے رہیں۔