تہذیبِ اخلاق

مرتبہ پوسٹ دیکھی گئی




تہذیبِ اخلاق 


ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی


راہ سلوک کے ایک مسافر کو طے شدہ مقاصد (Specific Purpose) کے لیےتین مجاہدوں(Efforts)میں مصروف ہونا چاہیے۔  یہ مجاہدے قرآن کی روشنی میں اور معلم اعظم حضرت محمد ﷺکی سنت کی رہنمائی میں ہوں گے۔  تربیت کے لیے یہ مجاہدے درج ذیل ہیں۔ 

1۔ تزکیہ نفس  2۔ تہذیب اخلاق  3۔ تصفیہ قلب 


روحانی ڈائجسٹ کے گزشتہ شمارے میں تذکیہ نفس کے موضوع پر کچھ ابتدائی نکات  پیش کیے گئے۔ اس ماہ تہذیبِ اخلاق کے موضوع پر  چند نکات بالعموم قارئین روحانی ڈائجسٹ کے لیے  اور بالخصوص راہ ِسلوک پر چلنے کے خواہش مندوں کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔

تہذیب اخلاق

اس دنیا میں انسان کے کردار کا  اظہار اس کی گفتگو سے اور رویوں سے بھی ہوتا ہے۔ ہماری بات چیت  یا ہمارا کچھ کہنا، دوسروں کی سننا ، اپنے ساتھ  اور دوسروں کے ساتھ  ہمارے رویے دراصل ہمارے اخلاق سے منسلک ہوتے ہیں۔ آدمی کے  اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ 

اس دنیا میں ہماری زندگی کے عملی معاملات یا زندگی کے معاملات کے عملی اظہار کا اخلاق سے تعلق ہے۔ اخلاق  سے ایک شخص کی، ایک گروہ کی، ایک قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ اخلاق کے اچھے یا برے اظہار سے ساکھ بنتی یا بگڑتی ہے۔  

ہر شخص کو اپنے اخلاق اچھے بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ سلوک کی راہوں پر چلنے کے  خواہش مند مرد و خواتین سے یہ  توقع زیادہ  کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق اچھے بنائیں گے۔ راہ سلوک کے مسافر  کے، تصوف کے طالب علموں کے اخلاق اچھے ہونا ضروری ہیں۔

حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ ....

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ  مَکَارِمَ الْاَخْلَاق 

 مجھے اچھے اَخْلاق کی تکمیل کےلیے بھیجا گیا ہے۔   [مسند احمد]

نبی آخر حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے خود اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے ....

 وَ اِنَّكَ  لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ O

اور بلاشبہ آپ اخلاق کے بلند   مرتبے پر ہیں۔ [سورہ القلم(68)۔ آیت 4]

اپنے اخلاق بہتر بنانا، لوگوں کے لیے خیر اور بھلائی کے جذبات رکھنا، دوسروں کے کام آنا یہ سب اچھے کام قرآنی آیات پر عمل اور سنتِ نبوی پر عمل کا اظہار ہیں۔  

گھر یا معاشرے  کا  ماحول آدمی کے اخلاق پر اثر ڈالتا ہے ۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ کئی افراد ماحول کی وجہ سے  برائی کو جلد قبول کرلیتے ہیں۔ ماحول کی اچھائیاں ازخود قبول کرنے والوں کی تعداد کم ہے ۔ اس کی ایک  مثال یہ ہے کہ  کئی بہت اچھے گھرانوں کے شریف بچے محلے یا تعلیمی اداروں میں کسی خراب صحبت کی وجہ سے منشیات یا کسی اور برائی میں پڑ گئے۔ 

اس نکتے سے میں اپنے قارئین کو  یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اچھے اخلاق سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں۔ اس سیکھ کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کی حفاظت و پائیداری کا بھی اہتمام کرنا ہوتا ہے۔  کسی بہت اچھے اخلاق والے انسان  کو کسی وقت نفس کے غلبے سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نفس کے اس غلبے کی وجہ شیطان کی شرارت ہوسکتی ہے یا کبھی انسان نفسانی خواہشات سے خود بھی       مغلوب ہوسکتا ہے۔ 

اچھے اخلاق کی حفاظت اور پائیداری کے اہتمام کا مطلب یہ ہے کہ اچھے اخلاق والا شخص شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا رہے، نفس کی دھوکہ دہی سے ہوشیار رہے اور اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا دھیان رکھے۔ اچھے اخلاق کی حفاظت کا ایک ذریعہ  یہ ہے کہ آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز نہ کرتا ہو اور ضمیر کی تنبیہہ کو پوری اہمیت دیتاہو۔ 

اچھے  اخلاق  سکھانے کے لیےابتدائی طور پر  والدین کو  اور بعد میں اساتذہ اور دیگر افراد کو مسلسل کوششیں کرنا ہوتی ہیں۔  آدمی کے اخلاق کے سدھار اور اسے اچھائی کی راہ پر چلانے کے لیے مناسب تربیت اور مسلسل نگہداشت  بہت ضروری ہے۔ 

اخلاق کے سدھار کے لیےتربیت  میں  گھر، تعلیمی ادارے، سلسلہ طریقت  اور  معاشرہ کا ماحول مددگار ہوتے ہیں تاہم اخلاق کو اچھا بنانے کے لیےفرد کی دلی رضامندی ضروری ہے۔ کوئی شخص اچھائی اور سدھار پر خود آمادہ نہ ہو تو ماحول کے اچھے اثرات یا متعلقہ فرد کی کوششوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ 

اچھے اخلاق   کا ایک مطلب یہ ہے کہ دوسروں  کے حقوق اور جذبات کی پاس داری کی جائے اور اپنی حقتلفی یا دل آزاری پر صبر کرتے ہوئے  حسنِ سلوک کیا جائے ۔ 

صوفیا اپنے شاگردوں کو اچھے اخلاق کی اہمیت اور ان کے اثرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ صوفی استاد اپنے شاگردوں میں اچھے اخلاق سیکھنے کے لیےآمادگی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ اچھے اخلاق یا برے اخلاق آدمی کا مزاج بن جاتے ہیں ۔ مزاج کا حصہ بننے والے اخلاق دیرپا اثرات رکھتے ہیں۔ اچھے اخلاق والا شخص دوسروں کا خیرخواہ ہوتا ہے ، ایسا شخص دوسروں کے لیےنافع ہوتا ہے۔ اچھے اخلاق کا حامل شخص چاہتا ہے کہ اس کی ذات سے دوسروں کو فائدہ ہو ، اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کی ذات سے کسی کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ ہو ۔ 

کاروباری یا پروفیشنل اخلاقیات کا معاملہ الگ ہے ۔ ایسے اخلاق کا مقصد اپنے کاروبار کے فروغ اور اپنے  مالی فائدے کے لیے گاہک کو متاثر کرنا ہوتا ہے ۔ کاروباری اخلاقیات کی بنیاد ذاتی مفاد  پر ہے ۔  سروس فراہم کرنے والا ایک فرد اپنے کلائنٹ سے محض  اپنے مالی مفاد  کے لیے اچھی طرح بات کرتا ہے ۔یہ کاروباری رویہ آدمی کے اصل اخلاق کی نمائندگی نہیں کرتا ۔ 

ایک انسان کے اچھے اخلاق کے مخاطبین یا متاثرین دوسرے لوگ ہوتے ہیں یعنی اچھے اخلاق کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ 




ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

سلوک کی راہیں

روحانی ڈائجسٹ، سے اقتباس



  


اپنے پسندیدہ رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے مضامین آن لائن پڑھنے کے لیے بذریعہ ای میل یا بذریعہ فیس بُک سبسکرائب کیجیے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے نئے مضامین اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر پر پڑھیے….

https://roohanidigest.online

Disqus Comments

مزید ملاحظہ کیجیے